Nomaya Bhi Hai Aziz By Jaun Elia
Nomaya Bhi Hai Aziz By Jaun Elia
دست
جنوں کو کار نمایاں بھی ہیں عزیز
یاروں
کو شہر بھر کے گریباں بھی ہیں عزیز
اب
عقل و آگہی سے ہے اپنا معاملہ
لیکن
معاملات دل و جاں بھی ہیں عزیز
مجموعہ
خیال کی تنقید بھی ہے فرض
پر
ہم کو قصہ ہائے بزرگاں بھی ہیں عزیز
ناقوسیان
شہر بتاں سے ہے ربط خاص
سر
منزل حرم کے حدیٰ خواں بھی ہیں عزیز
یوں
ہو کہ ہند و پاک کی سرحد پہ جا بسیں
ہندو
بھی ہیں عزیز مسلماں بھی ہیں عزیز
برگشتگانِ
جادہِ عرفاں میں ہے شمار
سر
گشتگانِ جادہِ عرفاں بھی ہیں عزیز
شبخوں
ہی اب نبردِ کہن کا علاج ہے
پر
کچھ سحر رھان شبستاں بھی ہیں عزیز