Kaha Hain Janey By Jaun Elia
وہ
جو تھے رنگ میں سرشار کہاں ہیں جانے
زخم
داران رہ دار کہاں ہیں جانے
ہر
طرف شہر غم یار میں سناٹا ہے
شور
مستان غم یار کہاں ہیں جانے
گھر
سے جاتے ہیں خریدار پلٹ آتے ہیں
جنس
کمیاب کے بیمار کہاں ہیں جانے
اے
مسیحا ترے دکھ سے ہے سوا دکھ کس کا
کس
سے پوچھوں ترے بیمار کہاں ہیں جانے
میرا
کیا اپنا طرفدار نہیں میں خود بھی
وہ
جو ہے اس کے طرفدار کہاں ہیں جانے
اپنے
زخموں کو نہیں کوئی کھرچنے والا
کار
جاناں ترے بے کار کہاں ہیں جانے
قافلوں
کا ہے سرِ دشت ِ طلب کب سے پڑاؤ
ایلیا!
قافلہ سالار کہاں ہیں جانے