Humharey Zakham Puraney Ho Gaye By Jaun Elia
ہمارے
زخم تمنا پرانے ہو گئے ہیں
کہ
اس گلی میں گئے اب زمانے ہو گئے ہیں
تم
اپنے چاہنے والوں کی بات مت سنیو
تمہارے
چاہنے والے دوانے ہو گئے ہیں
وہ
زلف دھوپ میں فرقت کی آئی ہے جب یاد
تو
بادل آئے ہیں اور شامیانے ہو گئے ہیں
جو
اپنے طور سے ہم نے کبھی گذارے تھے
وہ
صبح و شام تو جیسے فسانے ہو گئے ہیں
عجب
مہک تھی مرے گل ترے شبستاں کی
سو
بلبلوں کے وہاں آشیانے ہو گئے ہیں
ہمارے
بعد جو آئیں انہیں مبارک ہو
جہاں
تھے کنج وہاں کارخانے ہو گئے ہیں