Gham mein thi Aik khushi kiya ki By Jaun Elia
Gham mein thi Aik khushi kiya ki By Jaun Elia
تو نے مستی وجود کی کیا کی
غم میں بھی تھی جو اِک خوشی کیا کی
ناز بردارِ دل براں اے دل
تو نے خود اپنی دل بَری کیا کی
آگیا مصلحت کی راہ پہ تو
اپنی ازخود گزشتگی کیا کی
رہروِ شامِ روشنی تو نے
اپنے آنگن کی چاندنی کیا کی
تیرا ہر کام اب حساب سے ہے
بے حسابی کی زندگی کیا کی
یُوں ہی پھرتا ہے تو جو راہوں میں
دل محلّے کی وہ گلی کیا کی
اِک نہ اِک بات سب میں ہوتی ہے
وہ جو اِک بات تجھ میں تھی کیا کی
جل اُٹھا دل ، شمالِ شام مرا
تُو نے بھی میری دل دہی کیا کی
نہیں معلوم ہو سکا دل نے
اپنی اُمیِد آخری کیا کی
جون دنیا کی چاکری کرکے
تُو نے دل کی وہ نوکری کیا کی
جون ایلیا